جو بھی مصروفِ سلامِ شہدا رہتا ہے
گو وہ رہتا نہیں پر نم سدا رہتا ہے
شمر کہتا تھا یہی ماں ہے علی اکبرؑ کی
جس کا اک ہاتھ کلیجے پہ دھرا رہتا ہے
ہے یہ شرمندگی پانی كے نہ پہچانے کی
نیزے پہ بھی سرِ عباسؑ جھکا رہتا ہیں
شام ہوتی ہے تو اونٹوں سے اترتے ہیں حرام
پر سرِ شاہؑ تو نیزے پہ چڑھا رہتا ہے
آن كے ہند کی بیٹی نے سكینہؑ سے کہا
سَر تیرا کس لیے ہر وقت کُھلا رہتا ہے
وہ لگی کہنے كے یتییموں کی نشانی ہے یہی
کرتا بے وارثی بچوں کا پھٹا رہتا ہے